Thursday 29 October 2015

قرادادِ لاھور 23 مارچ 1940 کیا تھی اور قراداد میں ترمیم کیوں ' کب ' کیا ھوئی؟

23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936/1937 میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوی کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔

کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔

پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔

غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں مسلم لیگ ایسا محسوس ہوتا تھا، برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔

اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔

اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری کا۔

اسی دوران دوسری عالم گیر جنگ کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔

اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔

موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔

دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

قرارداد لاہور میں ترمیم

پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل سن 1946 دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔

یہ بات بے حد اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔

قراردادِ لاہور کے مسودہ کا خالق کون تھا؟

غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قراردادِ لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت تھی اور سر سکندر حیات خان یونینسٹ پارٹی کے صدر تھے۔

سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔

سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندؤ راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسی بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔

سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی۔

سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔

دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں۔

ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔

لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔

25 سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ قرارداد لاہور کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔

No comments:

Post a Comment